اختلاف وانتشار کے منفی اثرات قسط (2)
تابناک و زرفشاں مستقبل
جس معاشرے، کمیونٹی، کنبے، خاندان کے افراد تفرقہ بازی کے شکار ہیں اگر آپ ان کی صورتحال کو پرکھیں اور جانچیں تو یہ بات عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ جب تلک کسی بھی کمیونٹی میں موجود تمام افراد کو تمییز وتفریق اور پارٹی بازیت کے رنگ دیئے بغیر ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع نا کیا جائے تب تلک یہ اختلافات کی دیمک اندر ہی اندر اس قوم کی ساکھ کی جڑوں کو کاغذکی طرح کھاتی رہے گی، تعمیراتی ،وترقیاتی راہوں میں روڑے اٹکتے رہیں گے، تقدم کی بجائے رجعتِ قہقری کا شکار رہے گا۔
اگر آپ کو اپنے علاقے، ملک، شہر، بستی وغیرہ سے سچی محبت ہے اور آپ اپنی محبت کے دعوے میں سچے ہیں تو مشورہ یہی ہے کہ اولا سب کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہئے بلکہ ہونا از حد لازمی اور ناگزیر ہے، جس کے بغیر ترقی کی راہیں مسدود ہیں اور رہیں گی۔
جب ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی انا کے حصار سے آزاد ہو کر اجتماعی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ایک ہی جھنڈے تلے لسانی، طبقاتی، علاقائی، نسلی، زبانی، خاندانی حدوں کو پار کر کے سب مل جائیں تو الگ الگ انگلی کی حیثیت سے ایک مٹھی کی طاقت میں بدل جائے گی اور کامیابی وکامرانی قدم چومیں گی۔ جس کے لئےانفردی اور اجتماعی جد جہد کرنی ہو گی، رجعت پسندی کو چھوڑ کر رجائیت پسندی کو اپنانا ہو گا، نئی نسل کو یگانگت، الفت، اخوت، بھائی چارگی کی اقدار سے روشناس کرانا ہوں گے، نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے خوب استفادہ لینا ہوگا۔ اگر ایک پلیٹ فارم پر سب جمع ہو جائیں تو کسی بھی علاقے میں ٹیلینٹیڈ، ایجوکیٹیڈ ، با صلاحیت، اور اہل مناصب کی کمی نہیں بلکہ بہتات ہوتی ہے جو ترقی کے لئے ایک مضبوط زینہ بن سکتے ہیں اور یہی طاقت اس کے باشندوں کے لئے ایک تابناک و زرفشاں مستقبل کی امین ہے۔
گلستان وبستان
ہر ملک، شہر، قصبہ، گاؤں وغیرہ اس گلستان و بستان کی مانند ہے جو مختلف ومتنوع اقسام و انواع کے پھولوں اور گلوں سے کھچا کھچ لبریز ہے، اور اسکا ہر باشندہ اس باغبان وباغواں جیسا ہے جو جس طرح اور جیسےچاہے پھول وگلاب سے اپنے باغ "زون" کو سجالے۔ اب دیکھیں یہ اس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس کو کس طرح ہنڈل کرتا ہے، کس قسم کی تبدیلی کو، کس طرح، کہاں، کیسے اور کب اپنے "علاقے، معاشرے" میں سمیٹنا چاہتا ہے، اس کا فیصلہ صرف اور صرف اسکے اپنے پاس ہے، اور اسکے استعمال کا حق بھی وہی رکھتا ہے۔
اب فیصلہ اس کا، اس کے لئے، اور اس کی اور اس کے علاقے، کنبے کی خاطر ہے۔جیسے اور جسطرح چاہیں وہ اس کو ڈرا کریں،اور اپنے پسندیدہ کلرز سے رنگ لیں۔ تب جا کر یہ پتہ چل جائے گا کہ اس کے "علاقے" کے مختلف آنگنوں کے کونوں میں کس کس طرح کے ہیرے و لعل اور موتی وگوہر اور دانہء عقیق اس کی پسند کا مدتِ دراز سے محوِ انتظار ہیں۔ وہی اس کی نکہت ورنگت کو چار چاند لگا سکتا ہے، مگر سوال از خود یہ جنم لیتا ہے کہ کیا اس عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لئے وہ سب تیار ہیں؟؟
دعا ہماری، امید ہماری
ہر اختلاف وانتشار کے شکار معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ سب ملکر سوچیں کیونکہ وقت کافی گزر چکا ہے۔ اور دیکھیں کہ کیسے پارٹی بازیت کی بیخ کنی اور تفرقہ پرستی کے مکمل استیصال کیا جا سکتاہے؟؟ اور انہیں کیا مؤثر اقدامات اٹھانا ہونگے کہ جس کی بدولت سب ایک کنبے اور ایک گھر کے افراد کی طرح بن کر مخالفت کی بجائے ایک دوسرے کی خاطر تن، من، دھن کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرنے کا خوشگوار ماحول بنا سکے، جس میں سب ہنس مکھ کی زندگی بسر کر سکیں اور ساتھ ہی پورے علاقے میں ترقیاتی امور پر موثر نتائج نکلے؟؟ ساتھ ہی یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے مقتدی وپیشوا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم معاشرتی امن کے قیام، کاروبار مملکت کے فروغ اور امن وبقائے باہم کی خاطر یہود ونصاری کے ساتھ میثاق ومعاہدہ کرتے ہیں جسے "میثاق مدینہ" کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور امم غیر کیساتھ معاہدات کی پہلی کڑی گردانا جاتا ہے،جس میں مسلم امہ کے لئے بیش بہا انمول زندگی گزارنے کے گر موجود ہیں، جس سے مسلم امہ کو سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ اگر یہود ونصاری کے ساتھ بھی متفق امور پر مصلحتا عہد وپیمان کیا جا سکتا ہے تو چہ معنی دارد اہل اسلام ہزاروں اختلافات، لاکھوں غلطیوں کے باوجود بھی متفق ومتحد کیوں نہیں ہو سکتے ہیں؟؟ لیکن اگر ان کے درمیان کوئی عقائدی یا اصولی چپقلش ہو تو اس پر کوئی سودا بازی نہیں کی جا سکتی دینی امور میں قرآن وسنت ہی کسوٹی ہوتی ہے اس لئے اختلافی مسائل کا ورود لا محالی ہے جس کا مطلب دنگا فساد بپا کر کے دنیوی امور پر ایک دوسرے کے ساتھ گزر بسر نا ممکن کرنا نہیں ہے۔
اللہ تعالی پارٹی بازیت کے اس بھرشٹ بھوت کی غلامی سے تمام مسلمانوں کو عموما پاکستانیوں کو خصوصا خلاصی عطا فرما، اور نسلا بعد نسل آنے والی نسلوں کے اذہان میں اس وبا کو سرایت کر جانے کی بجائے اسے نسیا منسیا کر دے، تاکہ إخوة على سرر متقابلين کے آئینہ دار بننے کی سعادت سے معمور ہوں۔ یہی ہے رب سے دعا ہماری اور یہی ہے آپ سے امید ہماری۔
No comments:
Post a Comment