بقلم:ياسين سامي عبداللهكليـــــــة الشريعـــــــــةجامعة الكويت 2006
حضرت مولانا محمد ابراہیم بن محمد علی حفظہ اللہ( خطیب جامع مسجد اہلحدیث)گلگت بلتستان شمال پاکستان
مولانا محمد ابراہیم کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی. موصوف اخوند محمد علی کا چشم و چراغ ہے۔ ابتدائی تعلیم پدر محترم سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ مزید دینی علوم کع تحصیل کی غرض سے آبائی گاؤں ترک کرکے بلتستان کی فقید المثال دینی درسگاہ دارالحدیث (موجودہ دارالعلوم)تشریف لے گئے۔ وہاں کے علماء،فضلاء سے مختلف علوم سے روشنی حاصل کی ۔
اس دور میں تنگدستی اور غربت اس منطقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی تھی۔ خود راقم نے آپ کو گویا سنا ہے:اس زمانے میں سواری وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں تھا۔ پیدل جاتے تھے۔ اور ادارے کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی، طلبہ کو صرف ۲۰ ٹوپے جو کے علاوہ کوئی اخراجات نہیں دیے جاتے تھے( الحمد للہ اس وقت ہر قسم کی آسائش متوفرہیں) مگر مولانا موصوف کے من میں حصول علم کا شوق ، وجزبہ اور ولولہ ومحبت انگڑائی لے رہی تھی۔ علم کی تشنگی اور بڑھ گئی لہذا علمی پیاس بجھانے کی خاطر پنجاب کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں پر مختلف دینی مدارس ومعاہد میں زیر تعلیم رہا۔ مدرسہ ماموں کانجن میں چند سال قیام کیا۔ آخر مدرسہ اڈانوالہ میں اپنے طالبعلمی دور کو سمیٹا اور اسناد فراغت حاصل کرکے دین وعلم کے نور سے اپنے دامن سرشار کرکے اپنی قوم وملت کو قرآن وسنت کی دعوت تبلیغ کرنے کا مصمم ارادہ لے کر آبائی گاؤں تشریف لائے۔
اس وقت مفتی اعظم مولانہ عبد القادر رحمہ اللہ بقید حیات تھے اور دعوت وتبلیغ کے میدان کا شاہسوار اور علمبردار تھا۔ اللہ کے خاص فضل و کرم سے آپ کی دعوت اور کاوشوں کی بدولت تمام اہلیان یوگو حلقہ بگوش اہلحدیث ہوئے ہیں۔ مولانا عبد القادر رحمہ اللہ صاحب آپ کو دل وجان سے پیار کرتے تھے اور آپ میں اپنا جانشین بننے کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ برائے ایں مختلف دینی اور جماعتی محافل ، مجالس اور مناسبات میں ساتھ رکھتے تھے۔ اور اپنی روح قفس عنصری سے پرواز کرنے سے قبل ہی آپ کو اپنا جانشین بنا چھوڑا۔
چنانچہ آپکی وفات پر ملال کے بعد اصلاح وتربیت کی عظیم ذمہ داری نبھانے کا سہرا آپ کے سر بندھا۔ اسوقت اہالیان یوگو سے شرک وبدعات اور خرافات کی دیجور ،تاریک شب ختم نہیں ہوئی تھی۔ مختلف غیر شرعی رسم اور عرس پائے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ان تمام غیر اخلاقی اور غیر شرعی افعال و اقوال کی بھیانک کھائی سے گاؤں والوں کو بچانے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ آخر کار رب رحمان ان گنت احسان واکرام سے ان تمام گناہوں کی بیخ کنی ہوئی ہے۔ مولانا موصوف کو مفتی اعظم کی وفات کے فورا بعد ہی گاؤں والوں نے بالاتفاق گاؤں کا سربراہ مقرر کیا اور امامت وخطابت اور قضاءوافتاء کا ذمہ دار بنایا۔ ۱۹۸۳ سے آپ ان فرائض کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔
آپ شعلہ بیان خطیب ہیں، اور حق گوئی و بیانی میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلتی برائیوں کے خلاف سدعظیم بن جاتا ہے اور خلاف شرع امور کے خلاف بجلی بن کر گرتا ہے۔ راقم کی ذاتی رائے کے مطابق آپ بلتستان میں وہ واحد شخص اور مجاہد ہیں جو سد الذرائع کے طور پر اپنے گھر میں اس پرآ شوب وپر فتن دور میں بھی ریڈیو تک نہیں رکھتا۔ بایں ہم بعض مخالفین نے آپ کی سیرت پر داغ و دھبہ ڈالنے کی ناکام کوشش بھی کی ، مگر آپ نے ان صورت حال میں تحمل وبردباری سے کام لیا اور ان کے خلاف کوئی بری بات تک نہیں کی آخر ان کے منہ پر خاک خود ہی مل گئ۔ آپ جمیعت اہلحدیث بلتستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور آجکل نائب رئیس مجلس العمل ہے۔ یوگو میں موجودہ دارلعلوم کی برانچ مدرسہ ابی بکر الصدیق کا انچارچ اعلی ہے۔ یوگو میں عوامی اور فلاح وبہود کے تمام کاموں میں آپ پیش پیش رہتے ہیں۔
http://www.yugo-baltistan.741.com/bowa%20ibrahim%20khateeb%20jame%20masjid%20yugo.htm
Thursday, May 26, 2011
حضرت مولانا محمد ابراہیم بن محمد علی حفظہ اللہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment