Thursday, May 26, 2011

فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ

بقلم: ياسين سامي عبدالله
كلية الشريعة
جامعة الكويت  2006

مولانا محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ تقریبا 1958 کو یوگو گلگت بلتستان شمال پاکستان
  کے ایک نیک اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی بزرگان دین سے حاصل کی۔شروع سے ہی قلب و ضمیر میں دینی علوم کے حصول کا شوق اور لگن کے امواج موجزن تھے ۔

علمی پیاس بجھانے کے لئے دینی علوم کے مرکز ومنبع دارالعلوم غواڑی کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں سے گوناگوں علم و فن کے گوہر و موتی سے اپنے دامن لبریز کیا۔ دارالعلوم میں سرگرم عمل ممتاز علماء کرام ومشائخ عظام کی علمی وسعتوں سے بہرہ مند ہوا۔


 آپ کے اساتذہ کرام میں مفتی اعظم مولانا عبدالقادر اور مولانا عبد الرشید ندوی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں ۔ آپ کے بقول راقم نے سنا ہے کہ جامعہ دارالعلوم آپ کے نزدیک مادر علمی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس وقت کی اقتصادی پستگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ دارالعلوم میں قیام کے دوران طلبہ بہت سے آلائش وآلام سے دوچار ہوتے تھے اپنے اخراجات مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کے بھیڑ بکریاں چرانا پڑتا تھا۔ آپ دوران تعلیم کسی مقامی گھر میں قیام پذیر تھے۔ اور رسد وراشن وغیرہ گاؤں سے لاتے تھے۔ آپ کو کئی بار اس قصے کو دہراتے ہوئے سنا ہے کہ بعض دفعہ مولانا حسن اثری رحمہ اللہ طلبہ کو پانی میں ستو ملا کر پلاتے تھے ۔ بقول موصوف اس مشفقانہ اور ہدرانہ معاملے کو کبھی بھلایا نہیں جاتا۔


مزید علمی جستجو کیلئے پنجاب کی درسگاہوں کی طرف جانے والے راستوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ کئی مدارس میں زیر تعلیم رہا بالآخر جامعہ سلفیہ سے سند فراغت حاصل کی۔ رب رحیم وکریم کے خاص کرم و احسان پھر والدین کی پر خلوص دعاؤں اور آپ کی علمی کاوشوں کی بدولت آپ کی قسمت کا تارا چمکا ۔ آپ کو عالم اسلام میں مشہور ونامور اور بے نظیر ولامثال دینی علوم وفنون کی عظیم الشان درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورة میں داخلہ ملا۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث کا فاضل ہے۔

الغرض۔۔۔۔۔ یوگو سے نکلا علمی علمی درسگاہوں میں پروان چڑھا اور آخر بیرون ملک سے ایک نامور عالم دین اور اہل وطن کے لئے توحید وسنت کی طرف دعوت و تبلیغ کا علمبردار بن کر واپس لوٹا ۔سعودیہ عربیہ سے واپسی کے بعد آپ نے مختلف مدارس میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔ عرصہ دراز تک جامعہ اثریہ جہلم میں مدرس متعین رہا۔ بعد ازاں آپ مرکز اسلامی سکردو میں تشریف لائے وہاں پر درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مرکز کی جامع مسجد اہلحدیث میں خطبہ ارشاد فرماتے رہے ۔ چند سال بعد مکتب الدعوة والارشاد کے مکتب رئیسی اسلام آباد میں ملازمت شروع کی۔ اس وقت آپ مدیر مکتب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ موصوف جامع مسجد اہلحدیث راوالپنڈ ی میں خطیب بھی ہیں۔ آپ کے خطبہ جمعہ سننے کیلئے دور دراز سے کثیر تعداد میں لوگ آتے ہیں۔


ہر ماہ کی 23 ویں تاریخ سے آخر تک ریڈیو پاکستان کے حی علی الفلاح پروگرام میں "سوال وجواب" اور دیگر دروس ارشاد فرماتے ہیں۔


مولانا موصوف خوش اخلاق ، ہنس مکھ، حاضر جواب، شگفتہ رو، نہایت سنجیدہ، ملنسار، اور باوقارہیں۔ آپ کو اردو اور بلتی زبان میں مایہ ناز خطیب اور مقرر گردانا جاتا ہے، آپ کی سریلی آواز سنتے ہی مسجدیں سامعین  سے کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہیں۔ آپ جمعیت اہلحدیث بلتستان کے ممتاز عالم دین ہیں، اور جمعیت اور ادارہ کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیتے رہتے ہیں، خدمت خلق کا بڑ ا حصہ آپ کے حصے میں آیا ہوا ہے، اسی طرح محتاج وغنی، اپنے پرائے طالبعلموں کی بلا تفریق وامتیاز مدد وتعاون فرماتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو دین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین میں کامیابی وکامرانی سے نوازیں اور تمام نیک امنگیں امیدیں اور تمنائیں پوری ہو جائیں۔ (آمین)ہ

http://www.yugo-baltistan.741.com/bowa%20khalil.htm

1 comment: