یاسین سامی ) کویت)
اختلاف وانتشار کے منفی اثرات قسط (1)
پارٹی بازیت، فرقہ واریت اور گروپ بندی عذاب ِ الہی ہے، جہاں بھی جس معاشرے اور علاقے میں وہ اپنے لئے زرخیز مٹی پاتی ہے، وہاں پر دیکھتے ہی دیکھتے اتنی تیزی سے پروان چڑھتی ہے کہ آخر اس موج ِ بلا کو کوئی روک سکتا ہے اور نا ہی اس کے سامنے سدِ سکندر بنانے میں کوئی کامیاب وکامران ہوتا ہے۔ جنگل میں آگ کی طرح ہر سمت پھیل جاتی ہے اور اس میں موجود ہر شے کو جھلس کر بھسم کر دیتی ہے۔ اس عذاب کے منفی اثرات زندگی کے ہر آنگن پر مرتب ہوتے ہیں, دینی، سماجی، سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، ازدواجی، معاشرتی، معاشیاتی، تعلقاتِ عامہ الغرض شعبہائے زندگی میں انحطاط وتنزل کے نقوش مرتب ہوتے ہیں۔
لہذا جو معاشرہ اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے وہ ترقی کے ہر وسائل کی فروانی ورسائی کے باوجود بھی مسائل در مسائل کی دلدل میں ایسا پھنستا جاتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے میں ہر قسم کی تعمیراتی منصوبوں اور ترقیاتی پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ بنیادی سہولتوں کے حصول میں بھی سب سے پیچھے دھکیلا جاتا ہے، جو اس کے باشندوں کی پیشانیوں پر کالک کا ٹیکا بن جاتا ہے جس کے مٹنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ اس وبائی مرض میں مبتلا افراد کے اذہان میں تعمیری سوچ کی جگہ سازشی بچار لے لیتی ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے مشاغل میں مگن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں منہمک ہو جاتے ہیں جس میں ہر گُر وحربے کو جائز و نا جائز کی کسوٹی کو چھوڑ کر استعمال کیے جاتے ہیں۔
جس کی ہزاروں مثالیں آپ کے سامنے ہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ افسوس صد افسوس امتِ مسلمہ فرقہ واریت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے, اس کی ایک بے نظیر اور زندہ مثال پیش کرنے میں ہمارے پیارے ملک پاکستان کی اعلی قیادت اور سیاسی پارٹیوں کے دھڑیں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان حضرات نے ملک میں اختلاف وانتشار کو قائم ودائم رکھنےپر اتفاق واتحاد کر رکھا ہے لہذا وہ افتراق کے درخت کی آبیاری میں مگن اور اسکی شجر کاری میں مصروف عمل ہیں، انکی دیکھا دیکھی میں ہمارے "بلگتستان" کی سیاسی پارٹیاں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام علاقے کے مسائل چھوڑ چھاڑ کر پارٹی بازیت میں سر گرم عمل ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے لئے الگ صوبے کے حصول کا بنیادی مقصد اختلاف وانتشار کی فضا قائم کر کے پوری قوم کو الجھنوں میں ڈال رکھنا ہے، اس میں اتنا مشغول ہیں کہ روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے کو بھی بھلا بیٹھے ہیں جس کے سنگین نتائج عوام کو مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
بیم ورجا اور آس ویاس
بہت سی جگہوں پر لوگ اختلافات کے شکار ہوتے ہیں جو کہ ان کی اجتماعی غلطیوں کا شاخسانہ ہوتا ہے مگر انسان سے خطائیں سرزد ہوتی رہتی ہیں اور غلطیوں کا ارتکاب فطری امر ہے، لیکن عقلمند اور خردمند وہی ٹھہرتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سکھیں اور اس سے اپنی اگلی زندگی میں مشعلِ راہ کا کام لیں، اسی لئے اگر کسی بھی معاشرے والے پوری طرح متحد ومتفق ہو جائیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل کے لئے مثبت پلاننگ کریں اور حکمت عملی کو اپنائیں تو شعبہائے زندگی میں ترقی کی منازل طے کرنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
نا صرف ترقیاتی مدارج کے مدتِ دراز سے مقفل ابواب آٹومیٹیکلی ان کے سامنے کھلتے جائیں گے بلکہ اغیار پر بھروسہ کئے بغیر وہ خود اپنے دگرگوں مسائل کے حلول نکالنے میں بھی کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں گے، جو ان کے لئے باعثِ اعتزاز واحتشام اور قابلِ افتخار بھی ہو گا۔ مگر پھر بھی نا سمجھیں تو پتہ نہیں کس مسیحے کا یا کس غیبی طاقت کا انہیں انتظار رہے گا اور نا جانے کب تلک فیصلہ کن اقدامات اٹھانے، دلجمعی وخلوص سے کام لینے میں بیم ورجا اور آس ویاس کی دلدل میں پھنسے رہیں گے۔ اللہ اتفاق واتحاد کی اہمیت ومطالب کو ہر ایک کے قلب وضمیر میں بٹھا دیں اور جس کی عملی تطبیق کے لئے سچے جذبات بھڑک اٹھیں، آمین۔
(جاری ہے۔۔۔)
No comments:
Post a Comment