مولانا ابو الکلام آزاد (غبارِ خاطر)۔
از وہاب اعجاز خان کا بلاگ
ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور و ہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ بھیجنا مکتوب نگاری کہلائے گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔
مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے ۔
خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابوالکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“، ”کاروانِ خیال“اور غبار خاطر قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی ۔
غبار خاطر:۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لئے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔
غبار خاطر کا اسلوب:۔
سجاد انصاری نے آزاد کے بارے میں لکھا ہے کہ
اگر قران اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابولکلام کی نثر یا اقبال کی نظم منتخب کی جاتی۔
بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں میں مولانا پر کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی دشوار ہے ۔ آسان ان معنوں میں کہ ان کی شخصیت ایک ایسے دیوتا کے مانند ہے جس کے بت کے سائے رقص کرکے پوری عمر گزاری جا سکتی ہے۔ اور دشوار اس طرح کہ ان کے ادبی کارناموں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لئے جب ہم ادب کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں یا اس کسوٹی کو استعما ل کرتے ہیں جس پر عام ادیبوں کا کھر ا کھوٹا پرکھا جا سکتا ہے۔ تو قدم قدم پر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یا توہم ان کارناموں کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر ہے ہیں یا وہ کسوٹی جھوٹی ہے۔ جس کی صداقت پر اب تک ہمارا ایما ن تھا۔ آزاد ہمارے ان نثر نگاروں میں ہیں جن کے ابتدائی کارناموں پر ہمارے بڑے بڑے انشا ءپرداز سر بسجود ہو گئے تھے۔غبار خاطر کے اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
متعد د اسالیب نثر پر قدرت:۔
مولانا ابولکلام آزاد کی انشا ءپردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب ِ نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و ابلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ ”تذکرے “ کے لئے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی ۔ وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لئے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔
عام فہم زبان:۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً چڑیا چڑے کی کہانی ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی ۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لئے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
لو گ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔
شعری زبان:۔
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز کی پیروی کی جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں، شاعری کے خانے میں ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قد م قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ داد نکلتی ہے جیسے غزل کے شعر سن کر ہی نکل سکتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔
شعروں کا استعمال:۔
غبار خاطر میں شعروں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ شعر یا مصرعے کو اس طرح استعمال کیاگیا ہے کہ اس سے جملہ پورا اور مطلب مکمل ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ عبارت میں کوئی بات کہی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرا دیا۔ مولانا کے شعری اسلوب کا ایک تیسرا روپ بھی ہے وہ یہ کہ شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور نثر میں استعمال کر لیا۔ خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں،
کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی
اس موقع پر ایک بہت ہی زبردست شعر درج کرتے ہیں
عربیت کا غلبہ:۔
مولانا کے طرز تحریر میں ، انوکھا پن ، شعریت ، عالمانہ سنجیدگی اور دوسری خصوصیات مسلم ہیں ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربیت کے غلبے کی وجہ سے کہیں کہیں عبارت گرانبار نظر آتی ہے۔ ذاتی معاملات کے بیان میں انہوں نے نسبتاً آسان اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کیا ہے لیکن ان میں بیچ بیچ میں عربی کے اشعار ، فقرے ، ضرب الامثال اور نامانوس الفاظ و تراکیب آجاتے ہیں۔ جن سے صحیح لطف ایک محدود طبقہ ہی اُٹھا سکتا ہے۔ او ر اس لئے مشتاق احمد یوسفی ان کے متعلق لکھتے ہیں۔
آزاد پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی
فارسی آمیز زبان:۔
اس کے علاوہ فارسی آمیزی تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی اور فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباًتمام تحریریں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً تمام خطوط میں فارسی کے الفاظ اور اشعار بکثرت ملتے ہیں ۔آزاد کے حافظے میں بے شمار عربی و فارسی شعراءکے اشعار محفوظ ہیں اور وہ ان اشعار کو اپنی تحریروں میں برمحل استعمال کرتے ہیں۔ بقول روبینہ ترین،
۔۔۔۔۔وہ اشعار جن کو اگر تیر و نشتر کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔
طنز و مزاح:۔
مولانا کے اسلوب کا ایک اور پہلو طنز و مزاح ہے جو ایک شمشیر بے نیام ہے۔ مولانا کے اسلوب کی قوس و قزاح میں یہ رنگ بہت دل نواز اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ظاہر کرنے والا ہے۔ مولانا کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے ۔ اس قسم کے نظاروں کے نمونے غبا ر خاطر میں ملتے ہیں ۔ مثلاً اپنے ایک اسیر ساتھی ڈاکٹر سید محمود کے جانوروں کو خوراک ڈالنے کے شغل کا بڑی خوبصورتی سے خاکہ اُڑایا ہے۔ مولانا کے مزاح کی یہ خصوصیت ہے کہ عامیانہ لہجہ یا بد مزاجی کا شائبہ بھی پیدانہیں ہوتا ۔ طنز میں بھی مولانا کے قلم کی نوک کتنی ہی باریک ہو کوئی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زہریلی یا تعصب سے آلود ہے۔
اس کے علاوہ اُن کے رومانیت کی پرچھائیں بھی ہمیں نظر آتی ہیں وہ قید و بند کی صعبتوں میں بھی اس خاص اسلوب کو ترک نہیں کرتے ۔ بلکہ اس سے ان کی عبارت میں اور بھی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔جبکہ موضوع خواہ کوئی بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے متعلق اشارے ضرور لے آتے ہیں۔
انفرادیت:۔
مولانا کا طرز تحریر اور اسلوب بیان اپنے اندر چند خصوصیات رکھتا ہے جو اردو ادب میں بڑی حد تک صرف اس کے لئے مخصوص ہے۔ مولانا کی فطری انفرادیت سے ان کا اسلوب بھی بھرپور ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات قلم سے لکھ ہی نہیں سکتے جس کا انداز انشاءپردازی کے عام اصولوں سے مماثلت نہ رکھتا ہو۔ وہ ایک پیش پا پا افتادہ بات کو بھی اس طرح لکھیں گے جس کو کبھی کسی نے نہ لکھا ہو اور اس کے ساتھ فصاحت اور بلاغت کا اشارہ و کنایہ اور قوت اظہار ان کے لفظوں کی معنویت کو بہت بھاری بھرکم اور دلوں اور دماغوں پر اثر کرنے والا بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات بہت ساد ہ حقیقتیں وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دلوں میں اُتر جاتی ہیں۔
قلمی نقش و نگار:۔
اگر ہم غبار خاطر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قلم سے جو نقش و نگار بنتے ہیں وہ ایک آرٹسٹ کی روح ہیں ۔ جو اپنے آپ کو کبھی روحانیت ، کبھی فلسفہ ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی اذیت نواز غمگینی کے پیرائے میں ظاہر کرتی ہے۔ اگر مولانا کے علمی انداز بیاں اور ادبی اسلوب کا تجزیہ کیا جا سکے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد کے افکار کا ایک بہائو ایک صحرائی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ جب وہ بہتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس چشمہ پر نہ تو کوئی پل باندھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے پانی پر ملاحوں کی کشتیاں تیرتی ہیں اور نہ اس کا پانی خس و خاشاک سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ یہ چشمہ ایک خاموش وادی کی آغوش میں جو مولانا کی فطرت ہے۔ بہتا چلا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے مولانا کی دوسری تحریروں پر”غبار خاطر“ قابل ترجیح ہے۔ جن کے مکتوبات غالباً اس لحاظ سے لکھے گئے تھے کہ وہ کبھی شائع نہ ہوں گے ۔ اس لئے ان مکتوبات میں مولانانے اپنے افکار کے بہت سے گوشے اور جہتیں بے تکلف ظاہر کر دیے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی ”غبار خاظر “ کے اسلوب ِ نگار ش کے بار ے میں لکھتے ہیں۔
غبار ِ خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا ۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے ، کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے ، پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہار دکھاتے او ر خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔
مجموعی جائزہ:۔
خلاصہ یہ کہ ”غبار خاطر“ کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا۔
مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مزید کہتا رہوں گا۔
اس مختصر مضمون کو ہم مولانا حسرت موہانی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں
خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔
مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے ۔
خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابوالکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“، ”کاروانِ خیال“اور غبار خاطر قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی ۔
غبار خاطر:۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لئے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔
غبار خاطر کا اسلوب:۔
سجاد انصاری نے آزاد کے بارے میں لکھا ہے کہ
اگر قران اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابولکلام کی نثر یا اقبال کی نظم منتخب کی جاتی۔
بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں میں مولانا پر کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی دشوار ہے ۔ آسان ان معنوں میں کہ ان کی شخصیت ایک ایسے دیوتا کے مانند ہے جس کے بت کے سائے رقص کرکے پوری عمر گزاری جا سکتی ہے۔ اور دشوار اس طرح کہ ان کے ادبی کارناموں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لئے جب ہم ادب کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں یا اس کسوٹی کو استعما ل کرتے ہیں جس پر عام ادیبوں کا کھر ا کھوٹا پرکھا جا سکتا ہے۔ تو قدم قدم پر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یا توہم ان کارناموں کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر ہے ہیں یا وہ کسوٹی جھوٹی ہے۔ جس کی صداقت پر اب تک ہمارا ایما ن تھا۔ آزاد ہمارے ان نثر نگاروں میں ہیں جن کے ابتدائی کارناموں پر ہمارے بڑے بڑے انشا ءپرداز سر بسجود ہو گئے تھے۔غبار خاطر کے اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
متعد د اسالیب نثر پر قدرت:۔
مولانا ابولکلام آزاد کی انشا ءپردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب ِ نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و ابلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ ”تذکرے “ کے لئے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی ۔ وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لئے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔
عام فہم زبان:۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً چڑیا چڑے کی کہانی ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی ۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لئے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
لو گ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔
شعری زبان:۔
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز کی پیروی کی جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں، شاعری کے خانے میں ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قد م قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ داد نکلتی ہے جیسے غزل کے شعر سن کر ہی نکل سکتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔
شعروں کا استعمال:۔
غبار خاطر میں شعروں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ شعر یا مصرعے کو اس طرح استعمال کیاگیا ہے کہ اس سے جملہ پورا اور مطلب مکمل ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ عبارت میں کوئی بات کہی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرا دیا۔ مولانا کے شعری اسلوب کا ایک تیسرا روپ بھی ہے وہ یہ کہ شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور نثر میں استعمال کر لیا۔ خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں،
کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی
اس موقع پر ایک بہت ہی زبردست شعر درج کرتے ہیں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
عربیت کا غلبہ:۔
مولانا کے طرز تحریر میں ، انوکھا پن ، شعریت ، عالمانہ سنجیدگی اور دوسری خصوصیات مسلم ہیں ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربیت کے غلبے کی وجہ سے کہیں کہیں عبارت گرانبار نظر آتی ہے۔ ذاتی معاملات کے بیان میں انہوں نے نسبتاً آسان اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کیا ہے لیکن ان میں بیچ بیچ میں عربی کے اشعار ، فقرے ، ضرب الامثال اور نامانوس الفاظ و تراکیب آجاتے ہیں۔ جن سے صحیح لطف ایک محدود طبقہ ہی اُٹھا سکتا ہے۔ او ر اس لئے مشتاق احمد یوسفی ان کے متعلق لکھتے ہیں۔
آزاد پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی
فارسی آمیز زبان:۔
اس کے علاوہ فارسی آمیزی تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی اور فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباًتمام تحریریں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً تمام خطوط میں فارسی کے الفاظ اور اشعار بکثرت ملتے ہیں ۔آزاد کے حافظے میں بے شمار عربی و فارسی شعراءکے اشعار محفوظ ہیں اور وہ ان اشعار کو اپنی تحریروں میں برمحل استعمال کرتے ہیں۔ بقول روبینہ ترین،
۔۔۔۔۔وہ اشعار جن کو اگر تیر و نشتر کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔
طنز و مزاح:۔
مولانا کے اسلوب کا ایک اور پہلو طنز و مزاح ہے جو ایک شمشیر بے نیام ہے۔ مولانا کے اسلوب کی قوس و قزاح میں یہ رنگ بہت دل نواز اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ظاہر کرنے والا ہے۔ مولانا کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے ۔ اس قسم کے نظاروں کے نمونے غبا ر خاطر میں ملتے ہیں ۔ مثلاً اپنے ایک اسیر ساتھی ڈاکٹر سید محمود کے جانوروں کو خوراک ڈالنے کے شغل کا بڑی خوبصورتی سے خاکہ اُڑایا ہے۔ مولانا کے مزاح کی یہ خصوصیت ہے کہ عامیانہ لہجہ یا بد مزاجی کا شائبہ بھی پیدانہیں ہوتا ۔ طنز میں بھی مولانا کے قلم کی نوک کتنی ہی باریک ہو کوئی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زہریلی یا تعصب سے آلود ہے۔
اس کے علاوہ اُن کے رومانیت کی پرچھائیں بھی ہمیں نظر آتی ہیں وہ قید و بند کی صعبتوں میں بھی اس خاص اسلوب کو ترک نہیں کرتے ۔ بلکہ اس سے ان کی عبارت میں اور بھی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔جبکہ موضوع خواہ کوئی بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے متعلق اشارے ضرور لے آتے ہیں۔
انفرادیت:۔
مولانا کا طرز تحریر اور اسلوب بیان اپنے اندر چند خصوصیات رکھتا ہے جو اردو ادب میں بڑی حد تک صرف اس کے لئے مخصوص ہے۔ مولانا کی فطری انفرادیت سے ان کا اسلوب بھی بھرپور ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات قلم سے لکھ ہی نہیں سکتے جس کا انداز انشاءپردازی کے عام اصولوں سے مماثلت نہ رکھتا ہو۔ وہ ایک پیش پا پا افتادہ بات کو بھی اس طرح لکھیں گے جس کو کبھی کسی نے نہ لکھا ہو اور اس کے ساتھ فصاحت اور بلاغت کا اشارہ و کنایہ اور قوت اظہار ان کے لفظوں کی معنویت کو بہت بھاری بھرکم اور دلوں اور دماغوں پر اثر کرنے والا بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات بہت ساد ہ حقیقتیں وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دلوں میں اُتر جاتی ہیں۔
قلمی نقش و نگار:۔
اگر ہم غبار خاطر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قلم سے جو نقش و نگار بنتے ہیں وہ ایک آرٹسٹ کی روح ہیں ۔ جو اپنے آپ کو کبھی روحانیت ، کبھی فلسفہ ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی اذیت نواز غمگینی کے پیرائے میں ظاہر کرتی ہے۔ اگر مولانا کے علمی انداز بیاں اور ادبی اسلوب کا تجزیہ کیا جا سکے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد کے افکار کا ایک بہائو ایک صحرائی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ جب وہ بہتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس چشمہ پر نہ تو کوئی پل باندھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے پانی پر ملاحوں کی کشتیاں تیرتی ہیں اور نہ اس کا پانی خس و خاشاک سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ یہ چشمہ ایک خاموش وادی کی آغوش میں جو مولانا کی فطرت ہے۔ بہتا چلا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے مولانا کی دوسری تحریروں پر”غبار خاطر“ قابل ترجیح ہے۔ جن کے مکتوبات غالباً اس لحاظ سے لکھے گئے تھے کہ وہ کبھی شائع نہ ہوں گے ۔ اس لئے ان مکتوبات میں مولانانے اپنے افکار کے بہت سے گوشے اور جہتیں بے تکلف ظاہر کر دیے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی ”غبار خاظر “ کے اسلوب ِ نگار ش کے بار ے میں لکھتے ہیں۔
غبار ِ خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا ۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے ، کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے ، پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہار دکھاتے او ر خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔
مجموعی جائزہ:۔
خلاصہ یہ کہ ”غبار خاطر“ کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا۔
مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مزید کہتا رہوں گا۔
اس مختصر مضمون کو ہم مولانا حسرت موہانی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں
جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا