Friday, May 27, 2011

مولانا ابو الکلام آزاد (غبارِ خاطر)۔

 

  مولانا ابو الکلام آزاد (غبارِ خاطر)۔ 

از وہاب اعجاز خان کا بلاگ


ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور و ہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ بھیجنا مکتوب نگاری کہلائے گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔
مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے ۔
خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابوالکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“، ”کاروانِ خیال“اور غبار خاطر قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی ۔
غبار خاطر:۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لئے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔
غبار خاطر کا اسلوب:۔
سجاد انصاری نے آزاد کے بارے میں لکھا ہے کہ
اگر قران اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابولکلام کی نثر یا اقبال کی نظم منتخب کی جاتی۔
بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں میں مولانا پر کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی دشوار ہے ۔ آسان ان معنوں میں کہ ان کی شخصیت ایک ایسے دیوتا کے مانند ہے جس کے بت کے سائے رقص کرکے پوری عمر گزاری جا سکتی ہے۔ اور دشوار اس طرح کہ ان کے ادبی کارناموں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لئے جب ہم ادب کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں یا اس کسوٹی کو استعما ل کرتے ہیں جس پر عام ادیبوں کا کھر ا کھوٹا پرکھا جا سکتا ہے۔ تو قدم قدم پر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یا توہم ان کارناموں کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر ہے ہیں یا وہ کسوٹی جھوٹی ہے۔ جس کی صداقت پر اب تک ہمارا ایما ن تھا۔ آزاد ہمارے ان نثر نگاروں میں ہیں جن کے ابتدائی کارناموں پر ہمارے بڑے بڑے انشا ءپرداز سر بسجود ہو گئے تھے۔غبار خاطر کے اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
متعد د اسالیب نثر پر قدرت:۔
مولانا ابولکلام آزاد کی انشا ءپردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب ِ نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و ابلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ ”تذکرے “ کے لئے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی ۔ وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لئے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔
عام فہم زبان:۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً چڑیا چڑے کی کہانی ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی ۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لئے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
لو گ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔
شعری زبان:۔
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز کی پیروی کی جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں، شاعری کے خانے میں ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قد م قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ داد نکلتی ہے جیسے غزل کے شعر سن کر ہی نکل سکتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔
شعروں کا استعمال:۔
غبار خاطر میں شعروں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ شعر یا مصرعے کو اس طرح استعمال کیاگیا ہے کہ اس سے جملہ پورا اور مطلب مکمل ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ عبارت میں کوئی بات کہی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرا دیا۔ مولانا کے شعری اسلوب کا ایک تیسرا روپ بھی ہے وہ یہ کہ شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور نثر میں استعمال کر لیا۔ خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں،
کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی
اس موقع پر ایک بہت ہی زبردست شعر درج کرتے ہیں

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

عربیت کا غلبہ
مولانا کے طرز تحریر میں ، انوکھا پن ، شعریت ، عالمانہ سنجیدگی اور دوسری خصوصیات مسلم ہیں ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربیت کے غلبے کی وجہ سے کہیں کہیں عبارت گرانبار نظر آتی ہے۔ ذاتی معاملات کے بیان میں انہوں نے نسبتاً آسان اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کیا ہے لیکن ان میں بیچ بیچ میں عربی کے اشعار ، فقرے ، ضرب الامثال اور نامانوس الفاظ و تراکیب آجاتے ہیں۔ جن سے صحیح لطف ایک محدود طبقہ ہی اُٹھا سکتا ہے۔ او ر اس لئے مشتاق احمد یوسفی ان کے متعلق لکھتے ہیں۔
آزاد پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی
فارسی آمیز زبان:۔
اس کے علاوہ فارسی آمیزی تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی اور فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباًتمام تحریریں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً تمام خطوط میں فارسی کے الفاظ اور اشعار بکثرت ملتے ہیں ۔آزاد کے حافظے میں بے شمار عربی و فارسی شعراءکے اشعار محفوظ ہیں اور وہ ان اشعار کو اپنی تحریروں میں برمحل استعمال کرتے ہیں۔ بقول روبینہ ترین،
۔۔۔۔۔وہ اشعار جن کو اگر تیر و نشتر کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔
طنز و مزاح:۔
مولانا کے اسلوب کا ایک اور پہلو طنز و مزاح ہے جو ایک شمشیر بے نیام ہے۔ مولانا کے اسلوب کی قوس و قزاح میں یہ رنگ بہت دل نواز اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ظاہر کرنے والا ہے۔ مولانا کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے ۔ اس قسم کے نظاروں کے نمونے غبا ر خاطر میں ملتے ہیں ۔ مثلاً اپنے ایک اسیر ساتھی ڈاکٹر سید محمود کے جانوروں کو خوراک ڈالنے کے شغل کا بڑی خوبصورتی سے خاکہ اُڑایا ہے۔ مولانا کے مزاح کی یہ خصوصیت ہے کہ عامیانہ لہجہ یا بد مزاجی کا شائبہ بھی پیدانہیں ہوتا ۔ طنز میں بھی مولانا کے قلم کی نوک کتنی ہی باریک ہو کوئی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زہریلی یا تعصب سے آلود ہے۔
اس کے علاوہ اُن کے رومانیت کی پرچھائیں بھی ہمیں نظر آتی ہیں وہ قید و بند کی صعبتوں میں بھی اس خاص اسلوب کو ترک نہیں کرتے ۔ بلکہ اس سے ان کی عبارت میں اور بھی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔جبکہ موضوع خواہ کوئی بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے متعلق اشارے ضرور لے آتے ہیں۔
انفرادیت:۔
مولانا کا طرز تحریر اور اسلوب بیان اپنے اندر چند خصوصیات رکھتا ہے جو اردو ادب میں بڑی حد تک صرف اس کے لئے مخصوص ہے۔ مولانا کی فطری انفرادیت سے ان کا اسلوب بھی بھرپور ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات قلم سے لکھ ہی نہیں سکتے جس کا انداز انشاءپردازی کے عام اصولوں سے مماثلت نہ رکھتا ہو۔ وہ ایک پیش پا پا افتادہ بات کو بھی اس طرح لکھیں گے جس کو کبھی کسی نے نہ لکھا ہو اور اس کے ساتھ فصاحت اور بلاغت کا اشارہ و کنایہ اور قوت اظہار ان کے لفظوں کی معنویت کو بہت بھاری بھرکم اور دلوں اور دماغوں پر اثر کرنے والا بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات بہت ساد ہ حقیقتیں وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دلوں میں اُتر جاتی ہیں۔
قلمی نقش و نگار:۔
اگر ہم غبار خاطر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قلم سے جو نقش و نگار بنتے ہیں وہ ایک آرٹسٹ کی روح ہیں ۔ جو اپنے آپ کو کبھی روحانیت ، کبھی فلسفہ ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی اذیت نواز غمگینی کے پیرائے میں ظاہر کرتی ہے۔ اگر مولانا کے علمی انداز بیاں اور ادبی اسلوب کا تجزیہ کیا جا سکے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد کے افکار کا ایک بہائو ایک صحرائی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ جب وہ بہتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس چشمہ پر نہ تو کوئی پل باندھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے پانی پر ملاحوں کی کشتیاں تیرتی ہیں اور نہ اس کا پانی خس و خاشاک سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ یہ چشمہ ایک خاموش وادی کی آغوش میں جو مولانا کی فطرت ہے۔ بہتا چلا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے مولانا کی دوسری تحریروں پر”غبار خاطر“ قابل ترجیح ہے۔ جن کے مکتوبات غالباً اس لحاظ سے لکھے گئے تھے کہ وہ کبھی شائع نہ ہوں گے ۔ اس لئے ان مکتوبات میں مولانانے اپنے افکار کے بہت سے گوشے اور جہتیں بے تکلف ظاہر کر دیے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی ”غبار خاظر “ کے اسلوب ِ نگار ش کے بار ے میں لکھتے ہیں۔
غبار ِ خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا ۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے ، کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے ، پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہار دکھاتے او ر خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔
مجموعی جائزہ:۔
خلاصہ یہ کہ ”غبار خاطر“ کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا۔
مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مزید کہتا رہوں گا۔
اس مختصر مضمون کو ہم مولانا حسرت موہانی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں

جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر

نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
 

Thursday, May 26, 2011

بر الوالدين



 اللهم وفقنا البر بالوالدين

والإحســــــــان إليهـــــما

والطاعــــــــة لهــــــــــــما

والإنصــــات لكلامهــــــما

والإذعــــان لأوامرهمــــــا

والشفقة على أحوالهما

والتجنب عن تأفيفهمــــا

والتحرز عن معصيتهمــــا

والإبتعاد عن عقوقهمــــا


العيد نقطة التحسن والترقية


بمناسبة يوم عيد الأضحى 1431هـ الموافق 2011م كتبت هذه الكلمات:


العيد نقطة التحسن والترقية


أيها الإخوة الأكارم والأصدقاء الأفاضل!!!!!ه

تقبل الله منا ومنكم الأعمال الحسنة

الصالحة والأفعال الجليلة النبيلة،

 ووفقنا لما فيه الخير والهدى

وتقبلوا أسمى آيات التهاني الحارة

 وأغلى باقات التبريكات القلبية

بمناسبة حلول عيد الأضحى المبارك، 

أعاده الله على الأمة الإسلامية برمتها

 باليمن والبركات والأمن والمسرات

والصحة والعافية، والقوة والسلامة

في الأرزاق والأبدان، والأموال والأوطان

للعباد والبلاد مرات عديدة وكرات مديدة

إنه ولي ذلك والقادر عليه

جعله الله نقطة تحول وتغيير وتحسين

وبداية تنمية ورقي وازدهار وتقدم

ومركز إنطلاق في الرفاهية والتقدمية

وعصر نهضة وريادة  وصحوة وقيادة

ومنطلق مسايرة الأمم المتقدمة

ومواكبة الركب على الأصعدة المتنوعة

والنواحي المختلفة والميادين المتعددة 

آمييييييييييييييييييييييييييييييييييين

يا رب البرية والأنام ومقلب الدهور والأيام







حضرت مولانا محمد ابراہیم بن محمد علی حفظہ اللہ


بقلم:ياسين سامي عبدالله
كليـــــــة الشريعـــــــــة
جامعة الكويت  2006

حضرت مولانا محمد ابراہیم بن محمد علی حفظہ اللہ
 ( خطیب جامع مسجد اہلحدیث)
گلگت بلتستان شمال پاکستان

 مولانا محمد ابراہیم کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی. موصوف اخوند محمد علی کا چشم و چراغ ہے۔ ابتدائی تعلیم پدر محترم سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ مزید دینی علوم کع تحصیل کی غرض سے آبائی گاؤں ترک کرکے بلتستان کی فقید المثال دینی درسگاہ دارالحدیث (موجودہ دارالعلوم)تشریف لے گئے۔ وہاں کے علماء،فضلاء سے مختلف علوم سے روشنی حاصل کی ۔

 اس دور میں تنگدستی اور غربت اس منطقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی تھی۔ خود راقم نے آپ کو گویا سنا ہے:اس زمانے میں سواری وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں تھا۔ پیدل جاتے تھے۔ اور ادارے کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی، طلبہ کو صرف ۲۰ ٹوپے جو کے علاوہ کوئی اخراجات نہیں دیے جاتے تھے( الحمد للہ اس وقت ہر قسم کی آسائش متوفرہیں) مگر مولانا موصوف کے من میں حصول علم کا شوق ، وجزبہ اور ولولہ ومحبت انگڑائی لے رہی تھی۔ علم کی تشنگی اور بڑھ گئی لہذا علمی پیاس بجھانے کی خاطر پنجاب کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں پر مختلف دینی مدارس ومعاہد میں زیر تعلیم رہا۔ مدرسہ ماموں کانجن میں چند سال قیام کیا۔ آخر مدرسہ اڈانوالہ میں اپنے طالبعلمی دور کو سمیٹا اور اسناد فراغت حاصل کرکے دین وعلم کے نور سے اپنے دامن سرشار کرکے اپنی قوم وملت کو قرآن وسنت کی دعوت تبلیغ کرنے کا مصمم ارادہ لے کر آبائی گاؤں  تشریف لائے۔

 اس وقت مفتی اعظم مولانہ عبد القادر رحمہ اللہ بقید حیات تھے اور دعوت وتبلیغ کے میدان کا شاہسوار اور علمبردار تھا۔ اللہ کے خاص فضل و کرم سے آپ کی دعوت اور کاوشوں کی بدولت تمام اہلیان یوگو حلقہ بگوش اہلحدیث ہوئے ہیں۔ مولانا عبد القادر رحمہ اللہ صاحب آپ کو دل وجان سے پیار کرتے تھے اور آپ میں اپنا جانشین بننے کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ برائے ایں مختلف دینی اور جماعتی محافل ، مجالس اور مناسبات میں ساتھ رکھتے تھے۔ اور اپنی روح قفس عنصری سے پرواز کرنے سے قبل ہی آپ کو اپنا جانشین بنا چھوڑا۔

چنانچہ آپکی وفات پر ملال کے بعد اصلاح وتربیت کی عظیم ذمہ داری نبھانے کا سہرا آپ کے سر بندھا۔ اسوقت اہالیان یوگو سے شرک وبدعات اور خرافات کی دیجور ،تاریک شب ختم نہیں ہوئی تھی۔ مختلف غیر شرعی رسم اور عرس پائے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ان تمام غیر اخلاقی اور غیر شرعی افعال و اقوال کی بھیانک کھائی سے گاؤں والوں کو بچانے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ آخر کار رب رحمان ان گنت احسان واکرام سے ان تمام گناہوں کی بیخ کنی ہوئی ہے۔ مولانا موصوف کو مفتی اعظم کی وفات کے فورا بعد ہی گاؤں والوں نے بالاتفاق گاؤں کا سربراہ مقرر کیا اور امامت وخطابت اور قضاءوافتاء کا ذمہ دار بنایا۔ ۱۹۸۳ سے آپ ان فرائض کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔

 آپ شعلہ بیان خطیب ہیں، اور حق گوئی و بیانی میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلتی برائیوں کے خلاف سدعظیم بن جاتا ہے اور خلاف شرع امور کے خلاف بجلی بن کر گرتا ہے۔ راقم کی ذاتی رائے کے مطابق آپ بلتستان میں وہ واحد شخص اور مجاہد ہیں جو سد الذرائع کے طور پر اپنے گھر میں اس پرآ شوب وپر فتن دور میں بھی ریڈیو تک نہیں رکھتا۔ بایں ہم بعض مخالفین نے آپ کی سیرت پر داغ و دھبہ ڈالنے کی ناکام کوشش بھی کی ، مگر آپ نے ان صورت حال میں تحمل وبردباری سے کام لیا اور ان کے خلاف کوئی بری بات تک نہیں کی آخر ان کے منہ پر خاک خود ہی مل گئ۔ آپ جمیعت اہلحدیث بلتستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور آجکل نائب رئیس مجلس العمل ہے۔ یوگو میں موجودہ دارلعلوم کی برانچ مدرسہ ابی بکر الصدیق کا انچارچ اعلی ہے۔ یوگو میں عوامی اور فلاح وبہود کے تمام کاموں میں آپ پیش پیش رہتے ہیں۔



http://www.yugo-baltistan.741.com/bowa%20ibrahim%20khateeb%20jame%20masjid%20yugo.htm


فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ

بقلم: ياسين سامي عبدالله
كلية الشريعة
جامعة الكويت  2006

مولانا محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ تقریبا 1958 کو یوگو گلگت بلتستان شمال پاکستان
  کے ایک نیک اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی بزرگان دین سے حاصل کی۔شروع سے ہی قلب و ضمیر میں دینی علوم کے حصول کا شوق اور لگن کے امواج موجزن تھے ۔

علمی پیاس بجھانے کے لئے دینی علوم کے مرکز ومنبع دارالعلوم غواڑی کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں سے گوناگوں علم و فن کے گوہر و موتی سے اپنے دامن لبریز کیا۔ دارالعلوم میں سرگرم عمل ممتاز علماء کرام ومشائخ عظام کی علمی وسعتوں سے بہرہ مند ہوا۔


 آپ کے اساتذہ کرام میں مفتی اعظم مولانا عبدالقادر اور مولانا عبد الرشید ندوی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں ۔ آپ کے بقول راقم نے سنا ہے کہ جامعہ دارالعلوم آپ کے نزدیک مادر علمی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس وقت کی اقتصادی پستگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ دارالعلوم میں قیام کے دوران طلبہ بہت سے آلائش وآلام سے دوچار ہوتے تھے اپنے اخراجات مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کے بھیڑ بکریاں چرانا پڑتا تھا۔ آپ دوران تعلیم کسی مقامی گھر میں قیام پذیر تھے۔ اور رسد وراشن وغیرہ گاؤں سے لاتے تھے۔ آپ کو کئی بار اس قصے کو دہراتے ہوئے سنا ہے کہ بعض دفعہ مولانا حسن اثری رحمہ اللہ طلبہ کو پانی میں ستو ملا کر پلاتے تھے ۔ بقول موصوف اس مشفقانہ اور ہدرانہ معاملے کو کبھی بھلایا نہیں جاتا۔


مزید علمی جستجو کیلئے پنجاب کی درسگاہوں کی طرف جانے والے راستوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ کئی مدارس میں زیر تعلیم رہا بالآخر جامعہ سلفیہ سے سند فراغت حاصل کی۔ رب رحیم وکریم کے خاص کرم و احسان پھر والدین کی پر خلوص دعاؤں اور آپ کی علمی کاوشوں کی بدولت آپ کی قسمت کا تارا چمکا ۔ آپ کو عالم اسلام میں مشہور ونامور اور بے نظیر ولامثال دینی علوم وفنون کی عظیم الشان درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورة میں داخلہ ملا۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث کا فاضل ہے۔

الغرض۔۔۔۔۔ یوگو سے نکلا علمی علمی درسگاہوں میں پروان چڑھا اور آخر بیرون ملک سے ایک نامور عالم دین اور اہل وطن کے لئے توحید وسنت کی طرف دعوت و تبلیغ کا علمبردار بن کر واپس لوٹا ۔سعودیہ عربیہ سے واپسی کے بعد آپ نے مختلف مدارس میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔ عرصہ دراز تک جامعہ اثریہ جہلم میں مدرس متعین رہا۔ بعد ازاں آپ مرکز اسلامی سکردو میں تشریف لائے وہاں پر درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مرکز کی جامع مسجد اہلحدیث میں خطبہ ارشاد فرماتے رہے ۔ چند سال بعد مکتب الدعوة والارشاد کے مکتب رئیسی اسلام آباد میں ملازمت شروع کی۔ اس وقت آپ مدیر مکتب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ موصوف جامع مسجد اہلحدیث راوالپنڈ ی میں خطیب بھی ہیں۔ آپ کے خطبہ جمعہ سننے کیلئے دور دراز سے کثیر تعداد میں لوگ آتے ہیں۔


ہر ماہ کی 23 ویں تاریخ سے آخر تک ریڈیو پاکستان کے حی علی الفلاح پروگرام میں "سوال وجواب" اور دیگر دروس ارشاد فرماتے ہیں۔


مولانا موصوف خوش اخلاق ، ہنس مکھ، حاضر جواب، شگفتہ رو، نہایت سنجیدہ، ملنسار، اور باوقارہیں۔ آپ کو اردو اور بلتی زبان میں مایہ ناز خطیب اور مقرر گردانا جاتا ہے، آپ کی سریلی آواز سنتے ہی مسجدیں سامعین  سے کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہیں۔ آپ جمعیت اہلحدیث بلتستان کے ممتاز عالم دین ہیں، اور جمعیت اور ادارہ کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیتے رہتے ہیں، خدمت خلق کا بڑ ا حصہ آپ کے حصے میں آیا ہوا ہے، اسی طرح محتاج وغنی، اپنے پرائے طالبعلموں کی بلا تفریق وامتیاز مدد وتعاون فرماتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو دین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین میں کامیابی وکامرانی سے نوازیں اور تمام نیک امنگیں امیدیں اور تمنائیں پوری ہو جائیں۔ (آمین)ہ

http://www.yugo-baltistan.741.com/bowa%20khalil.htm

اللهم احفظ المسلمين

اللهم احفظ المسلمين

...
اللهم اجعل البلاد الإسلامية بأسرها

بلاد أمن وأمان وسخاء ورخاء

واحقن اللهم دماء المسلمين

واحفظ أموالهم وأعراضهم وبلادهم

وجنب المسلين في مشارق الأرض ومغاربها

من الشرور والفتن ما ظهر منها وما بطن

إنه ولي ذلك والقادر عليه

وينبغي على الأمراء أن يتذكر

بأن الله إذا أخذ إن أخذه شديد أليم

وأن الله يمهل ولا يهمل

وأن بطش ربنا لشديد

فهيا بنا نرطب ألسنتنا بهذه الآية المباركة:

وإذا بطشتم بطشتم جبارين



الروابط للمقالات المنشورة ....... Links for Articles have been published....

الروابط للمقالات المنشورة .......  
Links for Articles have been published....


1- التقوى ميزان الناس عند رب الناس
http://afaq.kuniv.edu/contents/current/details.php?data_id=1439

2- التفجر المعرفي
http://afaq.kuniv.edu/contents/current/details.php?data_id=4424

3- لا إفراط ولا تفريط
http://afaq.kuniv.edu/contents/current/details.php?data_id=5001

http://afaq.kuniv.edu/contents/current/details.php?data_id=5103

4- خوش فہمی، بلکہ غلط فہمی———-یاسین سامیؔ یوگوی
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/04/26/%D8%AE%D9%88%D8%B4-%D9%81%DB%81%D9%85%DB%8C%D8%8C-%D8%A8%D9%84%DA%A9%DB%81-%D8%BA%D9%84%D8%B7-%D9%81%DB%81%D9%85%DB%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%94-%DB%8C.html

5- ہر ڈے مادر ڈے ۔۔۔۔یاسین سامیؔ
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/05/09/%DB%81%D8%B1-%DA%88%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%AF%D8%B1-%DA%88%DB%92-%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%94.html

6- ہر ڈے مادر ڈے
http://dailybaadeshimal.com/?page=cGFnZS00&dt=MDUtMTAtMjAxMQ==

7-میری ماں، پیاری ماں
http://www.dailyk2.com/index.php?pid=4&eid=1&nid=1&tnid=997&date=1305432000

8- فیصلہ آپکا، زندگی آپکی۔۔۔۔۔ یاسین سامی
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/05/14/%D9%81%DB%8C%D8%B5%D9%84%DB%81-%D8%A2%D9%BE%DA%A9%D8%A7%D8%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D8%A2%D9%BE%DA%A9%DB%8C%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94-%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D9%85.html

9- اختلاف وانتشار کے منفی اثرات۔: قسط (1)۔۔۔یاسین سامی
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/05/17/%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%81-%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B4%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%86%D9%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA%DB%94-%D9%82%D8%B3%D8%B7-1%DB%94%DB%94%DB%94.html

10- اختلاف وانتشار کے منفی اثرات قسط (2)۔۔۔۔ یاسین سامی
http://dailysahafat.com/articles/2011/05/20/%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%81-%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B4%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%86%D9%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%82%D8%B3%D8%B7-2%DB%94%DB%94%DB%94%DB%94.html

11- پاک سعودی تعلقات اور دشمن عناصر (1)۔
  • Baad e Shimal:
http://www.dailybaadeshimal.com/?page=cGFnZS00&dt=MDUtMjAtMjAxMQ==
  • Daily Sahafat:
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/05/24/%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%D8%B9%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1-%C3%B7%DB%94%DB%94%D9%82%D8%B3%D8%B7.html

12- پاک سعودی تعلقات اور دشمن عناصر (2)۔
  • Baad e Shimal:
http://www.dailybaadeshimal.com/?page=cGFnZS00&dt=MDUtMjQtMjAxMQ==

  • Daily Sahafat:
http://dailysahafat.com/latest-news/2011/05/24/%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%D8%B9%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1-%DB%94%DB%94%DB%94%D9%82%D8%B3%D8%B7.html



Wednesday, May 18, 2011

یومِ عرفہ


منظرِ یوگو



بجھ جاتے ہيں يوں ہي اکثر يہ دل کھلتے ہي کھلتے



دل رہتا ہے ہميشہ بجھتا ہي بجھتا


Mere to dil ki nida ho


بیاد مولانا عبدالرشید صدیقی



Some Important Islamic Occasions


Name: Yasin Sami Abdullah 

In the name of Allah Most Gracious Most Merciful


     Some Important Islamic Occasions

1.     Juma'h Prayer

    Besides the five obligatory prayers, Allah (subhanahu wa ta'ala) has also ordained the "Jumah" (Friday Congregational Prayer) as a necessary prayer on the Muslim Nation as is made clear in the verse of the Holy Qur'an. Friday is a glorious day in Islam and represents a great weekly meeting in which the Muslims gather in the houses of Allah leaving aside all worldly affairs. The "Jumah" prayer is therefore specific with a Sermon in which the mosque preachers (imams) discuss and deal with the daily problems of the Muslim's society and give enlightenment from the torch of Islam. The "Jumah" prayer reflects that Islam is a great Social order which fosters brotherhood, abhors disunity and discourages evils.
The Jumah is not a duty on women, who instead, may perform the obligatory Dhuhr (Noon) prayer at their homes although they may join the Jumah prayers, if by doing so does not affect their household duties, orcause them any inconvenience.
2.     Muharram
The first month in the Islamic calendar
Contrary to popular belief, Muharram is not a particular day, but the name of a month that marks the beginning of the year according to the Islamic calendar. Muharram is one of four months that have been designated as holy according to the Islamic calendar, the other three being - Dhul-Qa'adah, Dhul-Hijjah and Rajab. Fasting on the tenth day of Muharram, called Ashura, is particularly important, as it supposed to lead to great rewards.
3.     Isra wa Mi'raj
In Islamic tradition, the Isra and Mi'raj are the two parts of a journey that Prophet Muhammad took in one night, in 621 AD (1 BH). Many Muslims consider it a physical journey. The Isra begins with Prophet Muhammad resting in the Kaaba in Mecca, when the archangel Gabriel comes to him, and brings him the winged steed Buraq, who carries Prophet Muhammad to the "farthest mosque" in Jerusalem. There, Prophet Muhammad alights, tethers Buraq, and leads all the previous prophets in prayer. He then gets back on Buraq, and in the second part of the journey, the Mi'raj, is taken to the heavens, where he tours the circles of heaven, and speaks with the earlier prophets, and with Allah. Allah tells him to enjoin the Muslims to pray fifty times a day; however, Moses tells Muhammad that they would never do it, and urges Muhammad to go back several times and ask for a reduction, until finally it is reduced to five times a day.

4.     EID FITR
Eid Fitr is one of the two great Islamic festivals, the other being Eid-ul-Azha. Its importance can be judged from the fact that Almighty Allah Himself ordered the believers to celebrate it. It is celebrated at the end of the month of fasting (Ramadan) and has a special significance for the Muslim society. The Holy Prophet (S.A.W.) established the Islamic egalitarian society, free of all kinds of exploitation and corruption, and maintaining the sanctity of this society was made the obligation of the believers in every age. For this purpose, the holy month of fasting (Ramadan) was selected to help prepare believers for this responsibility. In this training, during the specific fasting periods believers are required to refrain from enjoying such things, which are otherwise lawful for them.
Eid Fitr is the Day of Thanksgiving to Allah, for giving His servants the opportunity to fast and to worship Him in the month of Ramadan. On this Day, Muslims leave their jobs, wear clean clothes, offer special Eid Prayers, and after prayers go to visit one another and take part in festivities. Small children wear beautiful new clothes, and are very busy enjoying the festival. Their angelic faces beam with joy.

5.     Eid al-Adha

At the end of the Hajj (annual pilgrimage to Mecca), Muslims throughout the world celebrate the holiday of Eid al-Adha (Festival of Sacrifice). During the celebration of Eid al-Adha, Muslims commemorate and remember Abraham's trials, by themselves slaughtering an animal such as a sheep, camel, or goat. This action is very often misunderstood by those outside the faith.
To celebrate Eid- Ul –Adha in a creative way, kids can make hand made Eid- Ul –Adha greetings and present them to all their near and dear ones. For those who have no time to visit markets to buy Eid- Ul –Adha greetings and have no free time to make hand made Eid- Ul –Adha greetings, for them online Eid- Ul –Adha greetings would be the best option. So celebrate this Eid- Ul –Adha in a different and creative way to remember it forever.
On the first morning of Eid al-Adha, Muslims around the world attend morning prayers at their local mosques. Prayers are followed by visits with family and friends, and the exchange of greetings and gifts. At some point, members of the family will visit a local farm or otherwise will make arrangements for the slaughter of an animal. The meat is distributed during the days of the holiday or shortly thereafter.
6.     Pilgrimage to Mecca
Once a year, Muslims of every ethnic group, colour, social status, and culture gather together in Mecca and stand before the Kaaba praising Allah together. It is a ritual that is designed to promote the bonds of Islamic brotherhood and sisterhood by showing that everyone is equal in the eyes of Allah.
The Hajj makes Muslims feel real importance of life here on earth, and the afterlife, by stripping away all markers of social status, wealth, and pride. In the Hajj all are truly equal. For Muslims, the Hajj is the fifth and final pillar of Islam. It occurs in the month of Dhul Hijjah which is the twelfth month of the Islamic lunar calendar. It is the journey that every sane adult Muslim must undertake at least once in their lives if they can afford it and are physically able.

Mankind



Name: Yasin Sami Abdullah
Date: 27th Nov 2007

Mankind
All people are members of mankind family. They are all the children of one father, Adam. There is no difference in race, tribe, language, and colure between all mankind. Arabic, Non Arabic all equal. Allah send message for all them by different books and prophets. 
All mankind will die and should return to Allah, They will be judge on the Day of Judgment equally. They are responsible to obey Allah's commands. Who follow his guidance will enter Paradise and who reject that will enter Hell. All these will be equally.

خوش فهمي بلكه غلط فهمي


ہر ڈے مادر ڈے


فیصلہ آپکا، زندگی آپکی


 یاسین سامی (کویت)
فیصلہ آپکا، زندگی آپکی
  انسان کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز رونما ہوتے رہتے  ہیں، شب و روز کی تبدیلیوں کے ساتھ ہی ساتھ اس کى سوچ و بچار، کردار و گفتار، چال وچلن حرکات و سکنات، افعال و اقوال نیز سماجی سیاسی ثقافتی تعلیمی، معاشرتی، معاشی، ازدواجی  الغرض شعبہائے زندگی میں ان گنت و لا تعداد تغیر و تبدل ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ یوں جب بندہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر کھڑا ہو کر دیکھیں تو اس کے سامنے لا متناہی تبدیلیوں کی ایک ہست وبو نظر آئے گی۔ 
دنیا اس گلستان و بستان کی مانند ہے جو مختلف و متنوع اقسام و انواع پھولوں گلوں اور غنچوں سے کھچا کھچ لبریز وبھرپور ہے، اور انسان اس باغبان و باغواں جیسا ہے جو جس طرح اور جیسےچاہے پھول و گلاب سے اپنے باغ کو سجالے۔
 اب دیکھیں کہ یہ آپکے ہاتھ میں ہے کہ آپ اس کو کس طرح ہنڈل کرِتے ہیں کس قسم کی تبدیلی کو کس طرح کہاں کیسے اور کب اپنے دامنِ زندگی میں سمیٹنا چاہتے ہیں؟؟ اس کا فیصلہ صرف اور صرف آپکے اپنے پاس ہے اور اسکو استعمال کا حق بھی آپ ہی رکھتے ہیں۔اب فیصلہ آپ کا آپ کے لئے اور آپکی خاطر ہے۔جیسے اور جسطرح چاہیں آپ اس کو ڈرا کریں،اور اپنے پسندیدہ کلرز سے رنگا لیں تب جا کر یہ پتہ چل جائے گا کہ زندگی کے مختلف آنگنوں کے کونوں میں کس کس طرح کے ہیرے و لعل اور موتی وگوہر اور دانہء عقیق آپ کی پسند کا مدتِ دراز سے محوِ انتظار ہیں۔ 
ضرور نکہت ورنگت سے لطف اٹھائے گا, تو سب مل کر بلند و بالا آواز سے للکاریں کہ"فیصلہ آپکا, زندگی آپکی" ہنستے اور مسکراتے ہوئے چہروں، دلوں اور لبوں کیساتھ۔

اختلاف وانتشار کے منفی اثرات قسط (2)


اختلاف وانتشار کے منفی اثرات   قسط (2)

تابناک و زرفشاں مستقبل
جس معاشرے، کمیونٹی، کنبے، خاندان کے افراد تفرقہ بازی کے شکار ہیں اگر آپ ان کی صورتحال کو پرکھیں اور جانچیں تو یہ بات عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ جب تلک کسی بھی کمیونٹی میں موجود تمام افراد کو تمییز وتفریق اور پارٹی بازیت کے رنگ دیئے بغیر ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع نا کیا جائے تب تلک یہ اختلافات کی دیمک اندر ہی اندر  اس قوم کی ساکھ کی جڑوں کو کاغذکی طرح کھاتی رہے گی، تعمیراتی ،وترقیاتی راہوں میں روڑے اٹکتے رہیں گے، تقدم کی بجائے رجعتِ قہقری کا شکار رہے گا۔
اگر آپ کو اپنے علاقے، ملک، شہر، بستی وغیرہ سے سچی محبت ہے اور آپ اپنی محبت کے دعوے میں سچے ہیں تو مشورہ یہی ہے کہ اولا سب کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہئے بلکہ ہونا از حد لازمی اور ناگزیر ہے، جس کے بغیر ترقی کی  راہیں مسدود ہیں اور رہیں گی۔
جب ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی انا کے حصار سے آزاد ہو کر اجتماعی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ایک ہی جھنڈے تلے لسانی، طبقاتی، علاقائی، نسلی، زبانی، خاندانی  حدوں کو پار کر کے سب مل جائیں تو الگ الگ انگلی کی حیثیت سے ایک مٹھی کی طاقت میں بدل جائے گی اور کامیابی وکامرانی قدم چومیں گی۔ جس کے لئےانفردی اور اجتماعی جد جہد کرنی ہو گی، رجعت پسندی کو چھوڑ کر رجائیت پسندی کو اپنانا ہو گا، نئی نسل کو  یگانگت، الفت، اخوت، بھائی چارگی کی اقدار سے روشناس کرانا ہوں گے، نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے خوب استفادہ لینا ہوگا۔ اگر ایک پلیٹ فارم پر سب جمع ہو جائیں تو کسی بھی علاقے میں ٹیلینٹیڈ، ایجوکیٹیڈ ، با صلاحیت، اور اہل مناصب کی کمی نہیں بلکہ بہتات ہوتی ہے جو ترقی کے لئے ایک مضبوط زینہ بن سکتے ہیں اور یہی طاقت اس کے باشندوں کے لئے ایک تابناک و زرفشاں مستقبل کی امین ہے۔


گلستان وبستان
ہر ملک، شہر، قصبہ، گاؤں وغیرہ  اس گلستان و بستان کی مانند ہے جو مختلف ومتنوع اقسام و انواع کے پھولوں اور گلوں سے کھچا کھچ لبریز ہے، اور اسکا ہر باشندہ اس باغبان وباغواں جیسا ہے جو جس طرح اور جیسےچاہے پھول وگلاب سے اپنے باغ "زون" کو سجالے۔ اب دیکھیں یہ اس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس کو کس طرح ہنڈل کرتا ہے، کس قسم کی تبدیلی کو، کس طرح، کہاں، کیسے اور کب اپنے "علاقے، معاشرے" میں سمیٹنا چاہتا ہے،  اس کا فیصلہ صرف اور صرف اسکے اپنے پاس ہے، اور اسکے استعمال کا حق بھی وہی رکھتا ہے۔
اب فیصلہ اس کا، اس کے لئے، اور اس کی اور اس کے علاقے، کنبے کی خاطر ہے۔جیسے اور جسطرح چاہیں وہ اس کو ڈرا کریں،اور اپنے پسندیدہ کلرز سے رنگ لیں۔ تب جا کر یہ پتہ چل جائے گا کہ اس کے "علاقے" کے مختلف آنگنوں کے کونوں میں کس کس طرح کے ہیرے و لعل اور موتی وگوہر اور دانہء عقیق اس کی پسند کا مدتِ دراز سے محوِ انتظار ہیں۔ وہی اس کی نکہت ورنگت کو  چار چاند لگا سکتا ہے، مگر سوال از خود یہ جنم لیتا ہے کہ کیا اس عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لئے وہ سب تیار ہیں؟؟
دعا ہماری، امید ہماری
ہر اختلاف وانتشار کے شکار معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ سب ملکر سوچیں کیونکہ وقت کافی گزر چکا ہے۔ اور دیکھیں کہ کیسے پارٹی بازیت کی بیخ کنی اور تفرقہ پرستی کے مکمل استیصال کیا جا سکتاہے؟؟ اور انہیں  کیا مؤثر اقدامات اٹھانا ہونگے کہ جس کی بدولت سب ایک کنبے  اور ایک گھر کے افراد کی طرح بن کر مخالفت کی بجائے ایک دوسرے کی خاطر تن، من، دھن کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرنے کا خوشگوار ماحول بنا سکے، جس میں سب ہنس مکھ کی زندگی بسر کر سکیں اور ساتھ ہی پورے علاقے میں ترقیاتی امور پر موثر نتائج نکلے؟؟ ساتھ ہی یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے مقتدی وپیشوا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم معاشرتی امن کے قیام، کاروبار مملکت کے فروغ اور امن وبقائے باہم کی خاطر یہود ونصاری کے ساتھ میثاق ومعاہدہ کرتے ہیں جسے "میثاق مدینہ" کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور امم غیر کیساتھ معاہدات کی پہلی کڑی گردانا جاتا ہے،جس میں مسلم امہ کے لئے بیش بہا انمول زندگی گزارنے کے گر موجود ہیں، جس سے مسلم امہ کو سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ اگر یہود ونصاری کے ساتھ بھی متفق امور پر مصلحتا عہد وپیمان کیا جا سکتا ہے تو چہ معنی دارد اہل اسلام ہزاروں اختلافات، لاکھوں غلطیوں کے باوجود بھی متفق ومتحد کیوں نہیں ہو سکتے ہیں؟؟ لیکن اگر ان کے درمیان کوئی عقائدی یا اصولی چپقلش  ہو تو اس پر کوئی سودا بازی نہیں کی جا سکتی دینی امور میں قرآن وسنت ہی کسوٹی ہوتی ہے اس لئے اختلافی مسائل کا ورود لا محالی ہے جس کا مطلب دنگا فساد بپا کر کے دنیوی امور پر ایک دوسرے کے ساتھ گزر بسر نا ممکن کرنا نہیں ہے۔
اللہ تعالی پارٹی بازیت کے اس بھرشٹ بھوت کی غلامی سے تمام مسلمانوں کو عموما  پاکستانیوں کو خصوصا خلاصی عطا فرما، اور نسلا بعد نسل آنے والی نسلوں کے اذہان میں اس وبا کو سرایت کر جانے کی بجائے اسے نسیا منسیا کر دے، تاکہ إخوة على سرر متقابلين کے آئینہ دار بننے کی سعادت سے معمور ہوں۔ یہی ہے رب سے  دعا  ہماری اور یہی ہے آپ سے امید ہماری۔